یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
بلا سے پھاڑ کے پھر ہاتھ میں نہ لے کاغذ
وہ کون دن ہے کہ غیروں کو خط نہیں لکھتا
قلم کے بن کو لگے آگ اور جلے کاغذ
تمام شہر میں تشہیر میرے بد خو نے
پیام بر کو کیا باندھ کر گلے کاغذ
بہا دوں ایسے کئی دفتر اشک کی رو میں
کیے ہیں جمع ارے غافلو بھلے کاغذ
پیام بر مجھے ایسا کوئی نہیں ملتا
کہ حیلہ جو سے مرے لے ہی کر ٹلے کاغذ
بیاںؔ کو ضعف ہے اتنا کہ باد تند کے روز
جو خط لکھے تو اسے لے کے اڑ چلے کاغذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |