یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
کسو سے ہمیں یاں لڑا کر رہیں گی
اگر یہ نگاہیں ہیں کم بخت اپنی
تو کچھ ہم کو تہمت لگا کر رہیں گی
یہ سفاکیاں ہیں تو جوں مرغ بسمل
ہمیں خاک و خوں میں ملا کر رہیں گی
کیا ہم نے معلوم نظروں سے تیری
کہ نظریں تری ہم کو کھا کر رہیں گی
یہ آئیں ہیں تو ایک دن آسماں کو
جلا کر کھپا کر اڑا کر رہیں گی
اگر گردشیں آسماں کی یہی ہیں
تو ہم کو بھی گردش میں لا کر رہیں گی
یہ آنکھیں ہیں تو ایک دن مصحفیؔ کو
نگاہوں کے اندر فنا کر رہیں گی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |