یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
یہ آہ بے اثر کیا ہو یہ نخل بے ثمر کیا ہو
نہ ہو جب درد ہی یا رب تو دل کیا ہو جگر کیا ہو
بغل گیر آرزو سے ہیں مرادیں آرزو مجھ سے
یہاں اس وقت تو اک عید ہے تم جلوہ گر کیا ہو
مقدر میں یہ لکھا ہے کٹے گی عمر مر مر کر
ابھی سے مر گئے ہم دیکھیے اب عمر بھر کیا ہو
مروت سے ہو بیگانہ وفا سے دور ہو کوسوں
یہ سچ ہے نازنیں ہو خوبصورت ہو مگر کیا ہو
لگا کر زخم میں ٹانکے قضا تیری نہ آ جائے
جو وہ سفاک سن پائے بتا اے چارہ گر کیا ہو
قیامت کے بکھیڑے پڑ گئے آتے ہی دنیا میں
یہ مانا ہم نے مر جانا تو ممکن ہے مگر کیا ہو
کہا میں نے کہ نظمؔ مبتلا مرتا ہے حسرت میں
کہا اس نے اگر مر جائے تو میرا ضرر کیا ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |