یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری

یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری
by ثاقب لکھنوی

یہ آہ پردہ در ایسی ہوئی عدو میری
حباب ہو گئی آخر کو آبرو میری

نہ اپنی خود غرضی ہے نہ ہی شکایت دوست
ہے عشق و حسن کے مابین گفتگو میری

کوئی نکلنے نہ دے گا زمین ہو کہ فلک
زمانے بھر کے مقابل ہے آرزو میری

قنا کے بعد میں دیتا نہیں کسی کو جواب
صفت تھی آپ کی جو اب ہوئی وہ خوں میری

زباں ہلے نہ ہلے دل ہلے تو کام چلے
یہ زلزلہ ہو تو آ جائے گفتگو میری

بھلا دیا مجھے تو نے تجھے میں کھو بیٹھا
نہ میں ترا ہوا اے زندگی نہ تو میری

مجھے زمانے سے شکوہ نہیں کہ بے حس ہے
سمجھنے والے سمجھتے ہیں گفتگو میری

مرے کریم مری شرم حشر میں رکھ لے
عرق کے ساتھ ٹپکتی ہے آبرو میری

یہ ایک وادیٔ پر خار عشق تھی ثاقبؔ
الجھ کے رہ گئی ہر دل میں گفتگو میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse