یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں
یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں
پیچھے پیچھے ان کے، ان پر مرنے والے جاتے ہیں
لطف و رنجش کا تماشا ہے کہ دن میں لاکھ بار
گہہ بلائے جاتے ہیں ہم گہہ نکالے جاتے ہیں
جان سے جاتے رہے ہیں بسکہ لاکھوں بے گناہ
ہر طرف کوچے میں اس کے خوں کے نالے جاتے ہیں
سعی تو اپنی نہ کر اے گریہ صرف شست و شو
دل کے دھونے سے کوئی یہ داغ کالے جاتے ہیں
گر نہیں ہے وعدہ گہہ وہ کو تو کیوں راتوں کو لوگ
اس کے کوچے میں اندھیرے اور اجالے جاتے ہیں
اس کے کانوں تک رسائی کیوں نہیں حیران ہوں
عرش اعظم تک تو میرے شب کے نالے جاتے ہیں
ہو گیا ہوں میں تو ان کا مصحفیؔ حلقہ بگوش
یاد سے میری کب ان کانوں کے بالے جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |