یہ دل نہیں نور کا ہے شعلہ کسی کو اس سے ضرر نہیں ہے

یہ دل نہیں نور کا ہے شعلہ کسی کو اس سے ضرر نہیں ہے
by ناطق لکھنوی

یہ دل نہیں نور کا ہے شعلہ کسی کو اس سے ضرر نہیں ہے
مثال برق و شرر ہے لیکن مزاج برق و شرر نہیں ہے

ہے روکش آفتاب ذرہ بغیر پردہ بلا وسیلہ
وہاں لگائی ہے آنکھ دل نے جہاں مجال نظر نہیں ہے

حرم سے نکلے تلاش بت میں بتوں سے یاد خدا پہ بگڑی
غرض ہم آوارۂ وفا ہیں کہیں ہمارا گزر نہیں ہے

جو دیکھنے والے دیکھتے ہیں وہ سننے والوں سے کیا بتائیں
نظر کو ذوق زباں نہیں ہے زباں کو ذوق نظر نہیں ہے

اذاں ہو ناقوس یا جرس ہو موئثر اپنی جگہ پہ سب ہیں
مگر جہاں میں پہنچ گیا ہوں وہاں کسی کا اثر نہیں ہے

وہ نیچی نظریں تھیں دل کی طالب وفا نے گو جان نذر کر دی
مگر اثر جو سوال میں تھا جواب میں وہ اثر نہیں ہے

سخن مرا کیف دل ہے ناطقؔ وہ قدر کرتے ہیں جو ہو عاشق
نہیں ہے یہ فلسفہ کتابی یہ اکتسابی ہنر نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse