یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیں
یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیں
مثال لالہ سے کیا دوں کچھ ایک داغ نہیں
گلی میں تیری ہی دل بر سے گر پڑا دلبر
میں ڈھونڈوں اور کہاں جا کہیں سراغ نہیں
ہے داغ عشق سے روشن اور آہ سرد سے سرد
ہمارے دل کا تو خس خانہ بے چراغ نہیں
پڑا جہاں ترا نقش قدم مرے گل رو
وہ گل زمیں ہے کہاں جو کہ باغ باغ نہیں
اے میرے غنچہ دہن میرے نرگس مخمور
ترے تماشے کا مشتاق کون باغ نہیں
ہے کون غنچہ صراحی بنا نہ تیرے حضور
ہے کون پھول جو مے کا ترے ایاغ نہیں
کہاں کا شعر کہاں کی غزل کہاں کی بیت
کروں جو فکر بھی اب وہ دل و دماغ نہیں
نہ اظفریؔ سے کرو نظم و نثر کا مذکور
نہ جی کچھ ان دنوں اپنا دماغ چاغ نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |