یہ چشم آئینہ دار رو تھی کسو کی

یہ چشم آئینہ دار رو تھی کسو کی
by میر تقی میر
315491یہ چشم آئینہ دار رو تھی کسو کیمیر تقی میر

یہ چشم آئینہ دار رو تھی کسو کی
نظر اس طرف بھی کبھو تھی کسو کی

سحر پائے گل بے خودی ہم کو آئی
کہ اس سست پیماں میں بو تھی کسو کی

یہ سرگشتہ جب تک رہا اس چمن میں
برنگ صبا جستجو تھی کسو کی

نہ ٹھہری ٹک اک جان بر لب رسیدہ
ہمیں مدعا گفتگو تھی کسو کی

جلایا شب اک شعلۂ دل نے ہم کو
کہ اس تند سرکش میں خو تھی کسو کی

نہ تھے تجھ سے نازک میانان گلشن
بہت تو کمر جیسے مو تھی کسو کی

دم مرگ دشوار دی جان ان نے
مگر میرؔ کو آرزو تھی کسو کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.