یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا

یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا
by اصغر گونڈوی
298065یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوااصغر گونڈوی

یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا
مجھے تو جرعۂ تلخ اور سازگار ہوا

سرشک شوق کا وہ ایک قطرۂ ناچیز
اچھالنا تھا کہ اک بحر بے کنار ہوا

ادائے عشق کی تصویر کھنچ گئی پوری
وفور جوش سے یوں حسن بے قرار ہوا

بہت لطیف اشارے تھے چشم ساقی کے
نہ میں ہوا کبھی بے خود نہ ہشیار ہوا

لیے پھری نگہ شوق سارے عالم میں
بہت ہی جلوۂ حسن آج بے قرار ہوا

جہاں بھی میری نگاہوں سے ہو چلا معدوم
ارے بڑا غضب اے چشم سحر کار ہوا

مری نگاہوں نے جھک جھک کے کر دئیے سجدے
جہاں جہاں سے تقاضائے حسن یار ہوا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.