یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا

یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا
by نظم طباطبائی

یہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے ابھر گیا
کہ صدا ہے لطمۂ موج کی سر پر غرور کدھر گیا

مجھے جذب دل نے اے جز بہک کے رکھا قدم کوئی
مجھے پر لگائے شوق نے کہیں تھک کے میں جو ٹھہر گیا

مجھے پیری اور شباب میں جو ہے امتیاز تو اس قدر
کوئی جھونکا باد سحر کا تھا مرے پاس سے جو گزر گیا

اثر اس کے عشوۂ ناز کا جو ہوا وہ کس سے بیاں کروں
مجھے تو اجل کی ہے آرزو اسے وہم ہے کہ یہ مر گیا

تجھے اے خطیب چمن نہیں خبر اپنے خطبۂ شوق میں
کہ کتاب گل کا ورق ورق تری بے خودی سے بکھر گیا

کسے تو سناتا ہے ہم نشیں کہ ہے عشوۂ دشمن عقل و دیں
ترے کہنے کا ہے مجھے یقیں میں ترے ڈرانے سے ڈر گیا

کروں ذکر کیا میں شباب کا سنے کون قصہ یہ خواب کا
یہ وہ رات تھی کہ گزر گئی یہ وہ نشہ تھا کہ اتر گیا

دل ناتواں کو تکان ہو مجھے اس کی تاب نہ تھی ذرا
غم انتظار سے بچ گیا تھا نوید وصل سے مر گیا

مرے صبر و تاب کے سامنے نہ ہجوم خوف و رجا رہا
وہ چمک کے برق رہ گئی وہ گرج کے ابر گزر گیا

مجھے بحر غم سے عبور کی نہیں فکر اے مرے چارہ گر
نہیں کوئی چارہ کار اب مرے سر سے آب گزر گیا

مجھے راز عشق کے ضبط میں جو مزہ ملا ہے نہ پوچھیے
مے انگبیں کا یہ گھونٹ تھا کہ گلے سے میرے اتر گیا

نہیں اب جہان میں دوستی کبھی راستے میں جو مل گئے
نہیں مطلب ایک کو ایک سے یہ ادھر چلا وہ ادھر گیا

اگر آ کے غصہ نہیں رہا تو لگی تھی آگ کہ بجھ گئی
جو حسد کا جوش فرو ہوا تو یہ زہر چڑھ کے اتر گیا

تجھے نظمؔ وادئ شوق میں عبث احتیاط ہے اس قدر
کہیں گرتے گرتے سنبھل گیا کہیں چلتے چلتے ٹھہر گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse