صفحہ 4 - گل و بلبل
” میرا نام گل ہے“۔
کنکشن بہت صاف تھا۔ میں نے پہلے کبھی اس انٹرنیٹ آڈیو کواتنا صاف نہں سننا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ لڑکی میرے کمرے میں موجود ہے۔ اس کی آواز غم اور سوزسے بھری تھی۔
” آپ داستان لکھتے ہیں! میں نے آپ کی داستان ـ ’مدّ وجزر‘ پڑھی - بہت اچھی لگی۔ اگر میں آپ کو ایک حقیقی داستان سناؤں توکیا آپ اس کو لکھیں گے؟“
” میں آپ سے بد سلوکی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں صرف اپنی پسند کے موضوع پرداستان لکھتا ہوں“
گل نےمجھےنظرانداز کر کے کہا۔
” میں پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایک چھوٹےگاؤں میں پیدا ہوئ۔ میرا ایک بھائ ہے جو مجھ سےدو سال بڑا ہے۔اور دو بہنیں مجھ سے چھوٹی ہیں۔ ایک ،سال بھر اور دوسری دو سال مجھ سے چھوٹی ہے۔ میں نےاس کی سِسکیوں کی آواز سنی۔ ہمارے ساتھ دادی، نانی،چچا اورچچی بھی رہتے تھے۔
ابا بہت بوڑھے ہیں اور وہ چار جماعت تک اسکول گئے تھے۔ اس لے وہ مزدوری کا کام کرتے تھے۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں۔ جب کبھی ماں کوابا کچھ پیسے دیتے وہ بھائ کے ساتھ بازار جاکر سبزی، گوشت اور آٹا لے آتی تھیں۔ بعض دفعہ ماں ہم کو صرف’ ڈوڈئ‘ اور پانی دیتی اور ابا کو’ ٹیکالہ‘۔ میں جب چھ سال کی تھی تو پہلی دفعہ میں نے خان صاب کے ہاں دودھ پیا۔
میں نے مائکروفون میں کہا۔” تمہارا کیا نام ہے ؟ تم کون ہو؟ اور تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ اگر تم ان باتوں کا جواب پانچ منٹ میں نہ دوگی تو میں کمپیوٹر کو آف کردوں گا”۔
” ڈوڈئ اور ٹیکالہ کیا ہوتا ہے“۔ میں نے سوال کیا۔
میں نے سعدیہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔